آزادیِ اظہار یا شیطنت- کارٹون کونٹرورسی[:]
تحریر : ڈاکٹر کوکب نورانی اوکاڑوی
آزادیِ اظہار یا شیطنت
آئیے ، پہلے ’’ کارٹون ‘‘ کو کچھ جانیے :
’’ کارٹون ‘‘ اطالوی زبان کے لفظ ( CARTONE ) سے بنا ہے اور اس کے معنی ہیں : ’’ big paper‘‘ ۔ انگریزی میں اسے CARTOON لکھتے ہیں ۔ لغت میں اس کے معنی ہجویہ تصویر کے ہیں یعنی کسی خاکے کے ذریعے مذاق اڑانا ۔ انٹرنیٹ میں ویب سائٹ wikipedia اور encarta2006 کے مطابق کارٹون کا مطلب یہ ہے کہ فائن آرٹس میں ایک ڈرائنگ جو کاغذ یا کسی چیز پر بنائی جائے کارٹون کہلاتی ہے ۔ 1840ء کے عشرے میں یہ کہا گیا کہ : اپنی رائے کے مطابق مضحکہ ، طنزیہ ، ہجویہ تصویر جو الفاظ یا بغیر الفاظ کے ہو اور اخبار یا جریدے میں شائع کی جائے ۔
یورپ میں پندرہویں صدی عیسوی میں پہلے پہل ایسی ڈرائنگ تقسیم ہوئی تھی جسے ’’ کارٹون ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ اسی زمانے میں جرمنی میں اشتہاری سائز کا ایک کارٹون بنایا جاتا تھا جسے نمایاں جگہ چسپاں کیا جاتا ، تاکہ لوگوں کی رائے بدلی جاسکے ، اسے ’’ Broad Sheet ‘‘ کہتے تھے ۔ اس کے ذریعے آہستہ آہستہ رائے عامہ بدلنے میں خاصی مدد ملی ۔ 1568ء سے 1648ء تک 80 برس ڈچ اور ہسپانیا کے مابین اور 1618ء سے 1638ء تک جرمن لڑائی اور سترہویں صدی سے 18ویں صدی کی ابتدا تک Louis xiv کی فرانس کے خلاف جنگ میں بھی ’’ براڈ شیٹ کارٹون ‘‘ نے خاصا اہم کردار ادا کیا۔ کارٹون کا استعمال پھر الفاظ کی بجائے تصویروں کے ذریعے کہانی اور داستانوں کے لیے کیا جانے لگا ۔ بچوں کے لیے جیتے جاگتے انسانوں کی بجائے متحرک تصویروں میں سلسلہ وار کہانیاں بنائی جانے لگیں۔ ’’ کارٹون نیٹ ورک‘‘ کے نام سے دنیا بھر میں کہانیوں کا ایک تسلسل ٹیلے وژن کا اہم حصہ ہے ۔ اس میں ’’ سپر ہیرو ‘‘ صرف سفید فام ہی دکھائے جاتے ہیں اور بچوں کو دکھائی جانے والی یہ کہانیاں بھی تفریح سے زیادہ پروپیگنڈے کا کام کرتی ہیں ۔ کارٹون کی ایک ’’ تعریف ‘‘ یہ کی گئی کہ کسی موضوع یا کسی واقعے یا کسی مضمون پر تفریح کے لیے مضحکہ تصویر یا خاکہ بنانا ۔
’’ کے ری کے چر ‘‘ ( Caricature ) : یہ کارٹون کی ایک قسم ہے ۔ یہ بھی اطالوی زبان کے لفظ ’’ Cari Care ‘‘ سے بنا ہے ۔ اس کی تعریف یہ بتائی گئی ہے : کسی شخص کی ایسی تصویر بنانا کہ اس کے عیوب نمایاں ہوں ، بگاڑی ہوئی یا ہجویہ تصویر ، تحریر یا تصویر کے ذریعے تمسخر کرنا ۔
سولہویں اور سترھویں صدی کے درمیان اطالوی آرٹ اسٹوڈیو میں اس کی ابتدا ہوئی جہاں مشہور فن کار Annibale Carracci (1560-1609) اور eianlorezo Bernini ( 1598-1680) اس کے موجد تھے ۔ انہیں 18 ویں صدی میں بہت شہرت ملی ۔ 18 ویں صدی کے وسط میں برطانوی پینٹر William Hogarth ( ولیم ہوگرتھ )نے کے ری کے چر کو زمینی حقائق سے ملاکر Comics ایجاد کیے ۔ اسی نے لفظوں کی بجائے تصویروں سے کہانی بیان کرنے کا سلسلہ شروع کیا ۔ اس نے احمقانہ کرداروں میں اخلاقی نادانیوں کو بیان کیا ۔ برطانوی فن کار George Townshead ( جارج ٹاؤنز ہیڈ ) نے پورٹریٹ کارڈ کی صورت میں کارٹون اور کے ری کے چر متعارف کروائے ۔ برطانیا میں 1780ء تا 1820ء کاعرصہ کے ری کے چر کا ’’ سنہری دور ‘‘ شمار ہوا ۔ اخباروں رسالوں کے لیے ہزاروں کارٹون بنائے گئے ، ان کے موضوعات یہ تھے : فیشن ، سیاست ، سوشیل اسکینڈل اور روز مرہ کے اہم واقعات ۔ کے ری کے چر کا اسٹائل یہ تھا کہ بے ڈھنگی شکلیں اور خاکے تمسخرانہ اور فحش بنائے جاتے ۔ 19 ویں صدی کے وسط میں یہ کارٹون ’’صحافت‘‘ کا لازمی جزو ہوگئے ۔ ازاں بعد کے ری کے چر مشہور شخصیات ، سیاست کاروں اور بے جان چیزوں کا بنانا معمول ہوگیا ۔ ان کا مقصد توہین و تمسخر ہی ہوتا ، کبھی تحسین و ستائش کے لیے بھی اور کچھ کارٹون صرف تفریح و نشاط کے لیے بنائے جاتے۔
مشہور جرمن عیسائی پروٹسٹنٹ مبلّغ ’’ مارٹن لوتھر ‘‘ ( Martin Luther ) نے کیتھولک عیسائیوں کے خلاف کارٹونز ہی کے ذریعے ناخواندہ لوگوں میں مہم چلائی اور لوگوں کی بڑی تعداد کو اپنا حامی بنایا ۔
’’ Is that all folks ‘‘ کے عنوان سے گیارہ جون دو ہزار ایک یعنی پانچ برس پہلے کے حوالے سے انٹرنیٹ میں ہے کہ امریکا میں ’’Bugs Bunny ‘‘ کے عنوان سے بارہ کارٹون فلمیں ممنوع قرار دی گئیں کیوں کہ ان میں نسلی تعصب پایا گیا ۔ یہ جملہ ملاحظہ ہو : ” None of the black Characters in Cartoon are the main Characters – they are always part of the gang”
ایک کارٹون فلم اسی سلسلے میں صرف اس لیے معترضہ ٹھہری کہ اس میں ایک سیاہ فام شکاری دکھایا گیا تھا جس کے ہونٹ خاصے موٹے اور پاؤں سیدھے نہیں تھے ۔ سیاہ فام طبقے نے اس میں اپنی توہین محسوس کی اور اعتراض و احتجاج کیا تو ایسی 12کارٹون فلمیں دکھانا ممنوع قرار پایا ۔
اس مختصر تفصیل کے بعد ملاحظہ ہو :
ڈین مارک کے روزنامہ Jyllands – Posten The Conservative daily کے کل چرل ایڈیٹر Fleming Rose کے مطابق اس نے چالیس کارٹونسٹس سے رابطہ کیا اور ان سے یہ مذموم فرمائش کی کہ وہ ( حضور نبی کریم ) محمد ( ﷺ ) کا اپنے تصور کے مطابق کارٹون بناکر اسے بھیجیں ۔ چالیس میں سے صرف بارہ کارٹونسٹس اس گستاخی پر آمادہ ہوئے ۔ یہ کارٹون ایک کتاب کے لیے بنوائے گئے تھے جو حضور نبی کریم ﷺ کے بارے میں بچوں کے لیے طبع کی جارہی تھی ۔ بتایا گیا ہے کہ Kare Bluitgen کو فن کاروں نے بار بار سمجھایا کہ وہ اس کے ساتھ اس کتاب میں تعاون کے لیے ہر گز آمادہ نہیں کیوں کہ انہیں انتہا پسند مسلمانوں سے جوابی حملے کاسخت خوف ہے ۔ یہ بارہ کارٹون 30 ستمبر 2005ء کو شائع کئے گئے۔
عنوان یہ تھا The Painting of Prophet & Protrail Islam فلیمنگ روز کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے اس مذموم فعل سے ایک سال قبل امریکا گیا اور وہاں صیہونی ٹولے کے پروردہ ڈینیل پائبس سے اس کا خاص رابطہ رہا ۔ یہ شخص گزشہ چالیس برس سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے قلم کا بے دریغ استعمال کررہا ہے اور اس حوالے سے دوسروں کو مالی امداد بھی فراہم کرتا ہے ۔
اصل کارٹونسٹ کا نام Kurt Westergaard ہے ۔ 18 فروری 2006ء کے برطانوی اخبارات کے مطابق اس کا بیان ہے کہ ان مذموم خاکوں کی اشاعت کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ’’ اسلام اور پیغمبر اسلام دہشت گردی کی علامت ہیں ‘‘ ( معاذ اللّٰہ ) ۔ ڈین مارک کے علاوہ یہ کارٹون ناروے ، جرمنی ، فرانس ، اٹلی ، اسپین اور امریکا کے بعض اخبارات میں بھی شائع ہوئے ۔
کیا یہ ’’ ڈین مارک ‘‘ کے ایک پبلشر اور کلچرل ایڈیٹر کی اپنی خباثت اور شیطنت کا مظاہرہ تھا یا ملت اسلامیہ کی غیرت ایمانی کا احوال جاننے کے لیے اس اخبار کے ذریعے ’’ غیر مسلموں ‘‘ کی یہ کوئی سوچی سمجھی مذموم سازش تھی ؟
تحریر و تقریر کی آزادی کیا اسی کل چرل ایڈیٹر کو اسی روزنامہ میں حضرت سیدنا عیسی اور حضرت مریم ( علیہما السلام ) کا کوئی ایسا کارٹون بنانے کی جسارت کرنے دے گی جس میں وہ بم سے اسٹار آف ڈیوڈ کے ساتھ کچھ غلط کرتے دکھائے جائیں ؟ یا بد وضع اور بد قماش آوارہ لوگوں کے درمیان حضرت سیدنا عیسی علیہ السلام کو درمیان بگڑی ہوئی شکل میں کھڑے دکھائے جائیں ۔ ( معاذ اللّٰہ )
سیاہ فام طبقے کی غلط نمائش ہوئی تو اسے آزادیِ اظہار نہیں کہا گیا ۔ آس ٹریا ، بیل جیم ، فرانس ، جرمنی ، پولینڈ ، رومے نیا ، سلوواکیا ، سوِٹ زر لینڈ وغیرہ گیارہ ممالک میں ہولوکاسٹ ( Holo Caust) کا انکار کیوں قابل تعزیر جرم ہے ؟ بتایا گیا ہے کہ دو برس قبل ڈین مارک کے اسی اخبار نے حضرت سیدنا عیسی علیہ السلام کے کچھ کارٹون شائع کرنے سے انکار کیا تھا کیوں کہ وہ متنازع سمجھے گئے ۔ آزادی اظہار کی اجازت اس وقت کیوں فراموش کی گئی ؟ صرف اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تحریر و تصویر کو ’’ آزادیِ اظہار ‘‘ کیوں سمجھا جاتا ہے ؟
ڈین مارک ہی کے کریمنل کوڈ کی دفعہ 140 اور پینل کوڈ کی دفعہ 266 بی کے مطابق اس جرم پر قانونی کارروائی کیوں نہیں ہوئی ؟ ڈین مارک کے وزیر اعظم تو معافی چاہنے کے بجائے یہ کہتے ہیں :
Islamic world must realise we are not isolated
اسلام کی بنیادی تعلیم ہے کہ اللّٰہ تعالی جل شانہ کے ہر نبی ہی کی نہیں ، اللّٰہ تعالی کی نشانیوں کی بھی تعظیم کی جائے ۔ انسانی حقوق کے ’’ علم بردار ‘‘ کہلانے والے یہود و نصاری جانے کتنے عنوانات سے تنظیمیں تو بنائے ہوئے ہیں لیکن وہ مسلمانوں کو ’’ انسان‘‘ کہاں شمار کرتے ہیں اور ان کے لیے انسانی حقوق کہاں تسلیم کرتے ہیں ؟ انہوں نے جان لیا کہ مسلمان اپنے ایمان کے معاملے میں کسی مفاہمت اور مصالحت کے روا دار نہیں ہوسکتے اور نبیوں کے نبی، خاتم النبیین ﷺ کے بارے میں کسی کی لاف گزاف ہرگز برداشت نہیں کی جاسکتی ۔ ہر مسلمان جانتا ہے کہ اللّٰہ تعالی جل شانہ نے اپنے پیارے نبی پاک ﷺ کو وہ عزت و عظمت عطا کی ہے کہ ان کی بارگاہ کے آداب خود تعلیم فرمائے ہیں اور ان کے لیے کوئی ایسا لفظ کہنے کی گنجائش بھی نہیں جس کے منفی معنی و مفہوم بھی ہوسکتے ہوں اور کئی روپ بدل لینے والا شیطان بھی ان کی سی صورت ہر گز نہیں بناسکتا ۔ اہل ایمان کے نزدیک تو نبی پاک ﷺ کی صرف خیالی تصویر بنانا یا چھاپنا بھی کسی طرح روا نہیں چہ جائیکہ کسی کارٹون کی نسبت ان سے کی جائے ۔ ضرورت ہے کہ ہر مسلمان اپنی غیرت ایمانی کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے لوگوں سے ہر سطح پر مکمل مقاطعہ کرے ۔
اس موقع پر یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ وہ لوگ جو خود کو ’’ مسلمان ‘‘ کہلاکر بھی اپنی تحریر و تقریر میں نبی پاک ﷺ کی طرح طرح سے گستاخیاں کرتے رہے یا گستاخوں کی حمایت کرتے ہیں انہیں اعلانیہ توبہ کرنی چاہیے اور ایسے تمام مطبوعہ مواد کو تلف کردینا چاہیے جو ان کے دعوئ اسلام کی نفی کرتا ہے ۔