مجددِ مسلک ِ اہلِ سنّت، عاشقِ رسول ، خطیب ِ اعظم پاکستان
حضرت مولانا محمد شفیع اوکاڑوی رحمۃ اللّٰہ علیہ
کی سوانح کا سرسری خاکہ
٭ نام :- ( مولانا حافظ ) محمد شفیع اوکاڑوی
٭ ولدیت :-حاجی شیخ کرم الہی بن شیخ اللّٰہ دتا بن شیخ امام الدین مرحوم و مغفور
جو پنجاب کی معزز شیخ تاجر برادری سے تعلق رکھتے تھے –
٭ سن ولادت :- (۲ رمضان المبارک ۱۳۴۸ئ) فروری ۱۹۲۹ئ
٭ مقام ولادت :- کھیم کرن ، مشرقی پنجاب
٭ تعلیم :- اسکول میں مڈل تک اور دِینی تعلیم ، درس نظامی مکمل و دورۂ حدیث و تفسیر
٭ بیعت و ارادت :- شیخ المشائخ حضرت پیر میاں غلام اللّٰہ صاحب شرق پوری رحمۃ اللّٰہ علیہ المعروف ثانی صاحب قبلہ برادر خورد شیرِ ربّانی اعلیٰ حضرت میاں شیر محمد
صاحب شرق پوری علیہ الرحمہ ( سلسلۂ عالیہ نقش بندیہ مجددیہ )
٭ ( حضرت میاں شیر محمد صاحب شرق پوری علیہ الرحمہ نے حاجی میاں کرم الہٰی کو مولانا اوکاڑوی کی ولادت سے قبل ہی ان کے فضل و کمال کی بشارت دے دی تھی
آپ کے والدین نے بھی آپ کی ولادت سے قبل مبارک خواب دیکھے اور بیان کیے ) –
٭ حالات و خدمات : اپنے پیرو مرشد حضرت ثانی صاحب شرق پوری اور علمائے اہل سنّت کے ساتھ علمی طلب کے ابتدائی زمانے میں تحریک پاکستان میں بھرپور
حصّہ لیا اور تقسیم ہند تک سرگرم عمل رہے –
٭ ۱۹۴۷ئ میں ہجرت کرکے اوکاڑا آگئے اور جامعہ حنفیہ اشرف المدارس قائم کیا جس کے بانیان اور سرپرستوں میں سے تھے –
٭ دارالعلوم اشرف المدارس ، اوکاڑا کے شیخ الحدیث و التفسیر حضرت شیخ القرآن علامہ مولانا غلام علی صاحب اشرفی اوکاڑوی اور مدرسہ عربیہ اسلامیہ انوارالعلوم ملتان کے
شیخ الحدیث والتفسیر غزالی دَوراں حضرت علامہ مولانا سید احمد سعید صاحب کاظمی سے تمام متدادل دِینی علوم پڑھے اور درسِ نظامی و دورۂ حدیث کی تکمیل پر اسناد حاصل
کیں –
٭ جامع مسجد مہاجرین منٹگمری ( ساہی وال ) میں نماز جمعہ کی خطابت شروع کی اور بِرلا ہائی اسکول اوکاڑا میں شعبۂ دینیات کے سربراہ رہے –
٭ تحریک تحفظ ختم نبوت :۵۳-۱۹۵۲ء میں تحریک ختمِ نبوت میں محض سید عالم ختمی مرتبت حضور ﷺ کی عزت و ناموس کے لئے بھرپور حصّہ لیا – ضلع منٹگمری
( ساہی وال ) اور پنجاب کی سرکردہ شخصیت تھے ، حکومت نے قید کردیا – دس ماہ منٹگمری جیل میں رہے – اسیری کے ان ایّام میں حضرت مولانا کے دو فرزند تنویر احمد اور منیر
احمد جن کی عمر بالترتیب تین سال اور ایک سال تھی ، انتقال کرگئے – یہ دونوں مولانا کے پہلے فرزند تھے – ان کی وفات کے سبب گھریلو حالت پر یشان کُن تھے –
کچھ با اثر لوگوں نے ڈپٹی کمشنر ساہی وال سے مل کر سفارش کی – ڈپٹی کمشنر نے جیل کا دَورہ کِیا – گرفتار شُدگان سے ملاقات کی اور مولانا اوکاڑوی کو بالخصوص الگ
بُلاکر کہا ’’ بچوں کی وفات کی وجہ سے آپ کے گھر کے حالات ٹھیک نہیں ہیں – میرے پاس آپ کے لئے بہت سی سفارشیں ہیں -آپ معافی نامے پر دستخط کردیں –
آپ کا معافی نامہ عوام سے پوشیدہ رکھا جائے گا اور آج ہی آپ کو رہا کردیا جائے گا-‘‘ مولانا نے جواباً کہا کہ ’’ مَیں نے عزت و ناموسِ مصطفی ﷺ کے لئے کام کیا
ہے اور میرا عقیدہ ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ آخری نبی ہیں ، لہذا معافی مانگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا – بچے اللّٰہ کو پیارے ہوگئے ، میری جان بھی چلی جائے
تب بھی اپنے عقیدے پر قائم رہوں گا اور معافی نہیں مانگوں گا – ‘‘ اس جواب پر حکومت برہم ہوئی اور مزید سختی کی گئی ، دفعہ ۳ میں نظر بند کردیا گیا اور ملاقات وغیرہ پر
بھی سختی سے پابندی تھی – مولانا نے آخر وقت تک صبر و استقلال سے تمام صعوبتیں برداشت کیں –
٭ اوکاڑا میں قیام کے دوران دِینی و مذہبی اور ملی سماجی امور میں ہمیشہ نمایاں طَور پر حصّہ لیتے رہے –
٭ کراچی آمد: ۱۹۵۵ء میں کراچی کے مذہبی حلقوں کے شدید اصرار پر کراچی آئے – کراچی کی سب سے بڑی مرکزی میمن مسجد (بولٹن مارکیٹ ) کے
خطیب و امام مقرر ہوئے ، اور ہمہ جاں ، تادمِ آخر شب و روز دِین و مسلک کی تبلیغ میں مصروف رہے –
٭ میمن مسجد کی امامت و خطابت کے بعد تقریباً تین برس جامع مسجد عیدگاہ میدان اور سَوا دو سال جامع مسجد آرام باغ اور بارہ برس نور مسجد نزد جوبلی مارکٹ میں بلا
معاوضہ خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے اور نماز جمعہ پڑھاتے رہے – ہر مقام پر زبردست اجتماع ہوتا – ان تمام مساجد میں بالترتیب تفسیرِ قرآن کا درس دیتے
رہے اور تقریباً ۲۹ برس میں نو پاروں کی تفسیر بیان کی –
٭ اس دوران ۱۹۶۴ء میں ، پی ای سی ایچ سوسائٹی میں مسجد غوثیہ ٹرسٹ سے ملحق ( جس کے آپ چیئرمین بھی تھے) ایک دِینی درس گاہ قائم کی جس کا نام دارالعلوم حنفیہ
غوثیہ ہے – الحمد للّٰہ وہاں سے متعدد طلبہ علومِ دینیہ حاصل کرکے چہار سمت تبلیغِ دِین و مسلک کررہے ہیں –
٭ ۱۹۷۲ء میں ڈولی کھاتا ، گلستانِ شفیع اوکاڑوی ( سولجر بازار ) کراچی میں ایک قطعہ زمین پر جو گزشتہ سو برس سے مسجد کے لئے وقف تھا ، مولانا نے تعمیر مسجد کی بنیاد رکھی
اور بلا معاوضہ خطابت شروع کی – ایک ٹرسٹ قائم کیا ، جس کا نام گُل زارِ حبیب ﷺ رکھا – مولانا اس کے بانی و سربراہ تھے – اس ٹرسٹ کے زیر اہتمام جامع مسجد گُل
زارِ حبیب اور جامعہ اسلامیہ گُل زارِ حبیب زیر تعمیر ہیں – اسی مسجد کے پہلو میں آپ ؒ کی آخری آرام گاہ مرجعِ خلائق ہے –
٭ بے مثل خطابت: مسلسل چالیس برس تک ہر شب مولانا محترم مذہبی تقاریر فرماتے رہے ہیں – مولانا کی علمی استعداد ،حُسنِ بیان ، خوش الحانی اور شانِ خطابت نہایت
منفرد اور ہر دل عزیز تھی – ہر تقریر میں ہزاروں ، لاکھوں افراد کے اجتماعات ہوتے تھے – ماہِ محرم کی شب ِعاشورہ میں ملک کا سب سے بڑا مذہبی اجتماع ، مولانا کے
خطاب کی مجلس کا ہوتا تھا – پاکستان کا کوئی علاقہ شاید ہی ایسا ہو جہاں حضرت مولانا نے اپنی خطابت سے قلب و جاں کو آسودہ نہ کیا ہو –
٭ دِین و مسلک کی تبلیغ کے لئے مولانا نے شرقِ اوسط ، خلیج کی ریاستوں ، بھارت ، فلسطین ، جنوبی افریکا ، ماریشس اور دوسرے کئی غیر ملکی دَورے کیے – صرف جنوبی افریکا
میں ۱۹۸۰ ئ تک مولانا کی تقاریر کے ساٹھ ہزار کیسٹس فروخت ہوچکے تھے – دوسرے ممالک میں فروخت ہونے والی کیسٹس کی تعداد بھی کم نہیں اور اب مولانا کی تقاریر کی
وڈیو کیسٹس بھی پھیل رہی ہیں –
٭ تصانیف: مولانا اوکاڑوی کی عالمانہ تحقیق ، فقہی بصیرت اور عشقِ رسول ﷺ پر مبنی متعدد تصانیف ہیں ، جو مذہبی حلقوں میں نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں –
ہر کتاب ہزاروں کی تعداد میں شائع ہوکر نہایت مقبول ہوئی – ان کے نام یہ ہیں – ذکرِ جمیل ، ذکرِ حسین ( دو حصّے ) ، راہِ حق ، درسِ توحید ، شامِ کربلا ، راہِ عقیدت ،
امام پاک اور یزید پلید ، برکات ِمیلاد شریف ، ثواب العبادات ، نماز مترجم ، سفینۂ نوح ( دو حصّے ) ، مسلمان خاتون ، انوارِ رسالت ، مسئلہ طلاق ثلاثہ ، نغمۂ حبیب ،
مسئلہ سیاہ خضاب ، انگوٹھے چومنے کا مسئلہ ، اخلاق و اعمال ( نشری تقاریر ) ، تعارفِ علمائے دیوبند ، میلادِ شفیع ، جہاد و قتال ، آئینہ حقیقت ،نجوم الہدایت ، مسئلہ بیس ( ۲۰ )
تراویح ، مقالات ِ اوکاڑوی اور متعدد فتووں وغیرہ پر مشتمل رسائل وغیرہ –
٭ قاتلانہ حملہ: ۱۶ اکتوبر ۱۹۶۲ء میں کراچی کے علاقہ کھڈا مارکیٹ میں ایک سازش کے تحت اختلافِ عقائد کی بنا پر کچھ لوگوں نے محض تعصب کا شکار ہوکر دَورانِ تقریر
مولانا اوکاڑوی پر چُھریوں اور چاقوؤں سے شدید قاتلانہ حملہ کِیا جس سے آپ کی گردن ، کندھے ، سَر اور پُشت پر پانچ نہایت گہرے زخم آئے – کراچی کے
سول ہسپتال میں دو دن کے بعد پولیس آفیسر کو اپنا بیان دیتے ہوئے مولانا نے کہا ’’ مجھے کسی سے کوئی ذاتی عناد نہیں – نہ مَیں مجرم ہوں – اگر میرا کوئی جرم ہے تو صرف
یہ کہ مَیں دِینِ اسلام کی تبلیغ کرتا ہوں اور سید العالمین محسنِ انسانیت حضور رحمت ِ دو جہاں ﷺ کی تعریف و ثناء کرتا ہوں – مَیں کسی سے بدلہ لینا نہیں چاہتا اور نہ
مَیں حملہ آوروں کے خلاف کچھ کرنا چاہتا ہوں – میرا خون ناحق بہایا گیا ہے – اللّٰہ تعالی اسے قبول فرمائے اور میری نجات کا ذریعہ بنائے- مَیں حملہ آوروں کو معاف
کرتا ہوں – باقی آپ لوگ بقائے امن کے لئے جو مناسب ہو ، وہ کریں تاکہ ایسی کارروائیاں آئندہ نہ ہوں – ‘‘ مولانا نے اس مقدمے کے لئے کوئی وکیل نہیں کیا نہ
کسی مقدمے کی پَیروی کی – صرف ایک گواہ کی حیثیت سے اپنا بیان دیا – مولانا کا اس حملے سے جاں بَر ہونا محض ایک کرشمہ تھا –
انگریزی روزنامہ ڈیلی نیوز کا پہلا شمارہ اگلی صبح ۱۷ اکتوبر کو جاری ہُوا – جس کی بڑی سرخی مولانا پر قاتلانہ حملے سے متعلق تھی – مولانا ڈھائی مہینے اسپتال میں زیرِ علاج
رہے اور اسپتال سے فارغ ہوتے ہی پھر تبلیغِ دِین میں مصروف ہوگئے – اس قاتلانہ حملے کے خلاف ملک بھر میں شدید احتجاج ہُوا –
٭ دینی ، ملی، قومی ، سیاسی اور فلاحی مثالی کار گزاری:۱۹۶۵ء میں پاک بھارت جنگ کے موقع پر آپ نے پورے ملک میں جوش و جذبۂ جہاد کے لئے ملّت کی رہ
نمائی کی – قومی دفاعی فنڈ میں ہزاروں روپے دیئے اور
اپنی تقاریر کے اجتماعات میں لاکھوں روپے کا سامان جو لباس اور اشیائے خورد و نوش پر مشتمل تھا ، جمع کیا اور ہزاروں روپے نقدی سمیت علمائے کرام کے ایک وفد کے
ساتھ آزاد کشمیر گئے اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مہاجرین کے کیمپوں وغیرہ میں بدست ِ خود سامان تقسیم کِیا –
٭ آزاد کشمیر کے بائیس مقامات اور سیالکوٹ ، چھمب جوڑیاں لاہور ، واہگہ اور کھیم کرن کے متعدد محاذوں پر جاکر مجاہدین میں جہاد کی اہمیت اور مجاہد کی عظمت و شان اور
فی سبیل اللّٰہ جہاد کے موضوع پر وَل وَلہ انگیز تقاریر کیں –
٭ حضرت مولانا اوکاڑوی مرکزی جماعت ِ اہلِ سنّت پاکستان کے بانی تھے –
٭ ۱۹۷۰ء میں قومی اسمبلی کے امیدوار کی حیثیت سے کراچی کے سب سے بڑے حلقے سے سوشل اِزم کی یلغار کے خلاف مولانا نے انتخاب میں حصّہ لیا اور قومی اسمبلی
کے رکن منتخب ہوئے-
٭ قیام پاکستان سے تادم آخر حضرت مولانا ، ایک مخلص اور محب ِ وطن پاکستانی اور سچے پکّے مسلمان ہونے کا بھرپور مظاہرہ کرتے رہے ہیں – ان کی شخصیت ملک بھر میں
بالخصوص اور دنیا بھر میں بالعموم محبوب و محترم اور مقبول و ممتاز رہی –
٭ حضرت مولانا محترم ، تحریک ِ نظامِ مصطفی ﷺ کے قافلہ سالار تھے – آج اس تحریک کو جو مرتبہ و مقام حاصل ہے – اس میں ان کی خدمات اور مساعی جمیلہ بنیادی اہمیت
و حیثیت رکھتی ہیں –
٭ صدرِ مملکت جنرل محمد ضیاء الحق کی قائم کردہ مجلسِ شوریٰ کے معزز رُکن نامزد ہوئے اور قوانینِ اسلامی کے ترتیب و تشکیل اور نفاذ کے لئے کارہائے نمایاں انجام دیئے –
علاوہ ازیں وزارتِ مذہبی امور کی قائمہ کمیٹیوں کے رُکن رہے – اپنی وفات سے چند ماہ قبل مرکزی محکمہ اوقاف پاکستان کے نگرانِ اعلی اور یونی ورسٹی گرانٹس کمِشن کے
رُکن رہے-
٭ حضرت مولانا ، قومی سیرت حکومت ِ پاکستان کے بنیادی رُکن رہے –
٭ اتحاد بین المسلمین کے لئے ملک بھر میں نمایاں خدمات انجام دیں – قومی دفاعی فنڈ ، افغان مجاہدین ، سیلاب زدگان اور ہر ناگہانی سانحے سے متاثر ہونے والے افراد کی
امداد میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے رہے –
٭ حضرت مولانا نے کراچی کے علاقے ’’ گولی مار ‘‘ کا نام ’’ گُل بہار ‘‘ اور ’’ رام باغ ‘‘ کا نام ’’ آرام باغ ‘‘ تجویز کیا ، جو منظور و مقبول ہُوا ۔
٭ حضرت مولانا نے کراچی شہر کی پولیس کو گشت اور فوری کارروائی کے لیے ’’ سواری ‘‘ (سوزوکی پک اپ ) کی فراہمی کی منظوری کروائی ۔
٭ سولہ مرتبہ سفرِ حج و زیارت اور عمرہ کی سعادت سے مشرف ہوئے –
٭ ۱۹۷۴ء میں پہلی مرتبہ عارضۂ قلب کی شکایت ہوئی مگر تبلیغی اور تنظیمی سرگرمیوں میں کوئی کمی نہیں کی بلکہ کچھ زیادہ جذبہ و جوش سے شب و روز چہار سمت میں صدائے حق
بلند کرتے رہے –
٭ حضرت مولانا نے کراچی شہر میں اہلِ سنّت و جماعت کی طرف سے دس روزہ مجالسِ محرم اور جشنِ عید میلاد النبی ﷺ کے جلوس و جلسہ کے انعقاد کا سلسلہ شروع کِیا –
٭ تین ہزار سے زائد ا فراد ، مولانا مرحوم کے دست ِ حق پرست پر مشرف بہ اسلام ہوئے – اور لاکھوں افراد کے عقائد و اعمال کی اصلاح ہوئی –
٭ حضرت مولانا مرحوم کو طریقت کے تمام سلاسل میں متعدد مشائخ سے اجازت و خلافت حاصل تھی – آپ کے مریدین ہزاروں کی تعداد میں دینا بھر میں موجود ہیں –
٭ حضرت مولانا قبلہ نے جنوبی افریکا میں انجمن اہلِ سنّت و جماعت قائم کی –
٭ پاکستان میں سُنی تبلیغی مشن ، انجمن محبانِ صحابہ و اہلِ بیت ، تنظیم ائمہ و خطبا مساجد اہلِ سنّت اور متعدد ادارے قائم کئے –
٭ چالیس برس میں حضرت خطیب ِ پاکستان نے سینکڑوں موضوعات پراٹھارہ ہزار سے زائد خطابات کیے – جو اب تک ایک عالمی ریکارڈ ہے –
٭ ۱۹۷۵ء میں دَورانِ سفر ، دوسری مرتبہ دل کا دَورہ پڑا ، اسی حالت میں کراچی آئے اور تقریباً چھ ہفتے اسپتال میں زیرِ علاج رہے –
٭ ۱۹۸۳ء میں آخری بیرونِ ملک سفر ، بھارت کے لئے کیا – اپنے دَورے میں بمبئی ، اجمیر، دہلی اور بریلی شریف گئے –
٭ مارچ ۱۹۸۴ء میں شرق پور شریف گئے اور اپنے پیرو مرشد کی درگاہ پر حاضری دی جو وہاں ان کی آخری حاضری ثابت ہوئی –
٭ سفرِآخرت: ۲۰ اپریل ۱۹۸۴ ء کو آخری خطاب جامع مسجد گُل زارِ حبیب ﷺ میں نمازِ جمعہ کے اجتماع سے کیا – اسی شب تیسری بار دل کا شدید دَورہ پڑا اور قومی
ادارہ برائے امراضِ قلب میں داخل ہوئے – تین دن بعد سہ شنبہ ، ۲۱ رجب المرجب ۱۴۰۴ ھ بمطابق ۲۴ اپریل ۱۹۸۴ء کی صبح ۵۵ برس کی عمر میں اذانِ فجر
کے بعد دُرود و سلام پڑھتے ہوئے خالقِ حقیقی سے جاملے –
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْن
٭ ۲۵ اپریل کو نشتر پارک ، کراچی میں علامہ سید احمد سعید کاظمی کی امامت میں ظہر کی نماز کے بعد لاکھوں افراد نے حضرت خطیب ِ پاکستان کی نمازِ جنازہ ادا کی – اور پیارے
کملی والے تاج دارِ مدینہ ﷺ کے اس عاشقِ صادق کو کمال محبت و احترام سے رخصت کیا –
زِ دنیا برفتہ بہ شانِ رفیع : محمد شفیعش محمد شفیع
اسی سہ پہر حضرت مولانا مرحوم مسجد گُل زارِ حبیب کے احاطے میں مدفون ہوئے –
’’ رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ دایما ابدًا ‘‘
۱۴۰۴ ہجری
رفت و منزل عالم بالا گرفت یا الہی فیض او پایندہ دار
رفت و رُوئے خویش را از مانہفت تربتش را اے خدا تابندہ دار
گفت تاریخ و صالش بو البیان
ہادیِ راہِ خدا ، شب زندہ دار
۱۴۰۴ ہجری
از : فقیہ دوراں شیخ الاسلام حضرت مولانا غلام علی اشرفی اوکاڑوی