“نبیوں اور رسولوں کے بعد سب سے افضل بشر”

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

نبیوں اور رسولوں کے بعد سب سے افضل بشر 

تحریر : علامہ ڈاکٹر کوکب نورانی اوکاڑوی

اسم گرامی : عبداللّٰہ بن ( ابی قحافہ ) عثمان ابن عامر ابن عمر ابن کعب ابن سعد ابن تیم ( قبیلہ قریش کی شاخ ) ابن مرّہ ابن لوئی ابن غالب ابن فہر ۔
کنیت : ابوبکر ، لقب : عتیق جہنم سے آزاد ( ترمذی ) ، صدیق ۔
سن پیدائش 572/573 ء ( ہجرت سے پچاس برس چھ ماہ قبل ) بتایا جاتا ہے ۔
تاریخ وفات : منگل 22جمادی الاخری 13ھ ( 23 اگست 634ء ) ۔
اکہرے بدن اور صاف رنگ والے تھے ۔
والدہ کا نام : ام الخیر سلمی بنت صخر تھا ۔
ازواج : حبیبہ بنت خارجہ ابن زید ابی زہیر ، امّ رومان بنت عمر ، اسماء بنت عمیس ، قتیلہ بن عبدالعزی ۔
اولاد : عبدالرحمن ، عبداللّٰہ ، محمد ، عائشہ ، اسماء ، ام کلثوم ( رضی اللّٰہ عنہم ) ۔
عالم ، شاعر ، خداداد قوت حافظہ ، عرب قبائل کے علم الانساب کے ماہر ۔
کپڑے کی تجارت پیشہ تھا ۔ زمانہ جاہلیت میں بھی نیک اور اخلاق حسنہ کے پیکر تھے ۔
صلہ رحمی ، مہمان نوازی ، بے کسوں کی دست گیری اور معاونت خاصہ تھا۔
رسولِ کریم ﷺ کے رشتے میں چچا زاد ہوتے تھے ۔ انہیں یہ بھی شرف حاصل ہے کہ ان کی چار پشتوں نے صحابیت کا اعزاز پایا ۔ (حضرت ابوبکر ، ان کے والدین ، حضرت ابوبکر کی اولاد اور پوتے محمد بن عبدالرحمن اور نواسے عبداللّٰہ بن زبیر ) ۔
متعدد افراد ان کی بدولت مشرف با اسلام ہوے ۔ کئی مسلمان افراد کو غلامی سے نجات دلانے میں خطیر رقم خرچ کی۔ حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ وہ ہستی ہیں جن کی صحابیت کی گواہی قرآنِ کریم میں خود اللّٰہ تعالی نے دی ۔ ان کی شان میں متعدد آیاتِ قرآنی نازل ہوئیں ۔
نازک اور پُر خطر لمحات میں حضرت ابوبکر ایک مضبوط چٹان کی طرح مستقل مزاج رہتے اور کبھی ہمت نہ ہارتے ۔ ان کے مزاج میں رسولِ کریم ﷺ سے کمال اتفاق اور ہم آہنگی تھی ۔
10 یا 18 برس کی عمر میں والدِ گرامی کے ساتھ شام کی طرف پہلا سفر کیا ۔
حضرت سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللّٰہ تعالی عنہ کو اصحاب نبوی رضی اللّٰہ عنہم میں کلّی فضیلت حاصل ہے ۔
کنزالعمال میں حضرت عمار بن یاسر رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے ، امیر المومنین مولاے کائنات سیدنا علی کرم اللّٰہ وجہہ الکریم نے فرمایا : جو مجھے ابوبکر و عمر پر فضیلت دے گا وہ میرے اور تمام اصحابِ رسول کے حق کا منکر ہوگا ۔
بخاری شریف میں حضرت محمد بن حنیفہ رضی اللّٰہ عنہما سے روایت ہے کہ : میں نے اپنے والدِ گرامی سیدنا علی المرتضی رضی اللّٰہ عنہ سے عرض کی کہ رسول کریم ﷺ کے بعد سب آدمیوں میں بہتر کون ہے ؟ تو سیدنا علی نے فرمایا : حضرت ابوبکر ۔ میں نے عرض کی کہ پھر کون ؟ حضرت علی نے فرمایا : عمر ۔ (رضی اللّٰہ عنہم )
کنزالعمال میں حضرت ابوالزناد رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ : ایک شخص نے مولاے کائنات سیدنا علی کرم اللّٰہ وجہہ سے عرض کی : یا امیر المومنین! کیا بات ہوئی کہ مہاجرین و انصار نے حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ کو تقدیم دی حالاں کہ آپ کے مناقب بیش تر اور اسلام و سوابق ( نیکیوں میں پہل ) بیش تر ہے ۔ حضرت سیدنا علی نے فرمایا : اگر مسلمان کے لیے اللّٰہ تعالی کی پناہ نہ ہوتی تو میں تجھے قتل کردیتا ۔ تجھ پر افسوس ہے ۔ حضرت ابوبکر مجھ پر چار وجہ سے سبقت لے گئے ۔ افشاے اسلام میں مجھ سے پہلے ، ہجرت میں ، غار میں معیت و صحبت انہی کا حصہ ہوئی اور رسولِ کریم ﷺ نے امامت کے لیے انہی کو مقدم فرمایا ۔ تجھ پر افسوس ہے ۔ بے شک اللّٰہ تعالی جل شانہ نے سب کی مذمت کی اور حضرت ابوبکر کی مدح فرمائی ۔۔۔
کنزالعمال ہی میں روایت ہے ، خلیفہ رابع حضرت سیدنا علی کرم اللّٰہ وجہہ سے ایک نیک شخص نے عرض کی : رسول اللّٰہ ﷺ کے بعد جنت میں سب سے پہلے کون جاے گا ؟ حضرت علی نے فرمایا : حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ( رضی اللّٰہ عنہ ) ۔ عرض کی گئی کہ اے امیر المومنین ! کیا وہ دونوں آپ سے پہلے جنت میں جائیں گے ؟ حضرت علی نے فرمایا : ہاں ! قسم اس ( اللّٰہ تعالی ) کی جس نے بیج کو چیر کر پیڑ اگایا اور آدمی کو اپنی قدرت سے تصویر فرمایا ، بے شک ، وہ دونوں جنت کے پھل کھائیں گے ، اس کے پانی سے سیراب ہوں گے ، اس کی مسندوں پر آرام کریں گے اور میں ابھی حساب میں کھڑا ہوں گا۔
کنزالعمال اور جامع صغیر میں امیر المومنین سیدنا علی کرم اللّٰہ وجہہ سے روایت ہے کہ : رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا : ابوبکر و عمر سب اگلوں پچھلوں سے بہتر ( افضل ) ہیں ، تمام آسمان والوں اور زمین والوں سے افضل ہیں سواے نبیوں رسولوں کے ۔ دوسری روایت میں ہے کہ نبیوں رسولوں کے سوا اگلے پچھلے کہول اہلِ جنّت کے حضرت ابوبکر و عمر سردار ہیں ۔ ( کہول سے مراد ادھیڑ عمر کے افراد )
ترمذی شریف میں حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ سے روایت ہے کہ : نورِ مجسم ، شفیع معظم ، رحمتِ عالم ﷺ نے فرمایا : اللّٰہ تعالی جل شانہ ابوبکر پر رحمت فرماے ، مجھ سے اپنی بیٹی ( سیدہ عائشہ صدیقہ ) کا عقد کیا ، مجھے دار الہجرہ ( مدینہ منورہ ) میں لاے اور اپنے مال سے حضرت بلال کو خرید کر آزاد کیا اور مجھے اسلام میں کسی کے مال نے وہ فائدہ نہ دیاجو ابوبکر کے مال نے دیا ۔
حضرت عمر نے کہا آپ ہمارے سردار ہم سے بہتر اور رسولِ کریم ﷺ کو زیادہ پیارے ہیں ۔ ( کنزالعمال 35612 )
مواہب لدنیہ میں ہے کہ خلفاے اربعہ سے ہر خیر کے تقدم میں جس میں اسلام اور دخولِ جنت ہے ، حضرت سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ اول ہیں اور محمد بن حنیفہ نے کہا کہ حضرت ابوبکر تمام صحابہ میں افضل ہیں ۔ اسی کتاب میں طبرانی کے حوالے سے ہے ، سیدنا علی المرتضی حلف سے یہ فرماتے تھے کہ اللّٰہ تعالی نے آسمانوں سے حضرت ابوبکر کا نام ’’ الصدیق ‘‘ نازل فرمایا ۔ ( کنزالعمال 35633) ۔ ابو یحیی فرماتے ہیں کہ میں نے یہ بات کتنی مرتبہ حضرت سیدنا علی کرم اللّٰہ وجہہ سے سنی ہے اس کا شمار نہیں کرسکتا کہ حضرت علی منبر پر فرماتے تھے کہ بے شک اللّٰہ تعالی نے اپنے نبی پاک ﷺ کی زبان پر حضرت ابوبکر کا نام صدیق رکھا ۔ اسی کتاب میں ابوداؤد کے حوالے سے ہے کہ رسولِ کریم ﷺ کی امت میں سے حضرت ابوبکر الصدیق سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے ۔ ابونعیم نے روایت کیا کہ نبیوں اور رسولوں کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ سے افضل شخص پر سورج طلوع و غروب نہیں ہوا ۔ انہی نے روایت کیا کہ رسولِ کریم ﷺ نے دعا فرمائی : اے اللّٰہ تعالی قیامت کے دن ابوبکر کو میرے ساتھ میرے درجے میں رکھنا ۔
الاستیعاب میں ( اور زرقانی میں ) علامہ حافظ ابن عبدالبر نے حضرت سیدنا حسان رضی اللّٰہ عنہ کے اشعار نقل کیے جو انہوں نے رسولِ کریم ﷺ کے سامنے سناے تھے ۔ ان اشعار میں واضح ہے کہ نبیوں رسولوں کے بعد حضرت ابوبکر مخلوق میں سب سے بہتر و افضل ہیں ، تقوی اور عدل اور وفاداری میں سب سے بڑھ کر ہیں اور سب سے پہلے اسلام لانے والے شخص ہیں ، ان کے برابر کوئی نہیں ۔
سیدنا صدیقِ اکبر کے لیے علامہ ابن عبدالبر فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نے ہر معاملے میں رسولِ کریم ﷺ کی تصدیق کرنے میں پہل کی اس لیے آپ کا لقب ’’ صدیق ‘‘ ہوا ۔ ان کی کنیت ’’ابوبکر ‘‘ کے بارے میں زمخشری لکھتے ہیں : اپنی ذات میں بہترین خصائل جمع کرنے میں اور خیر میں سبقت لے جانے کی وجہ سے آپ کو ’’ ابوبکر ‘‘ پکارا گیا ۔ ( زرقانی ) انہوں نے خود پر صدق کو لازم کرلیا تھا اور ان سے کبھی کوئی بے ہودہ بات واقع نہیں ہوئی۔ (مواہب لدنیہ
الاصابہ میں علامہ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں : حضرت سیدنا ابوبکر شروع ہی سے بہت معزز اور قریش کے سرداروں میں سے تھے ۔ ان کا فیصلہ سب کے لیے قابل قبول ہوتا اور ان کی ضمانت سب کے نزدیک معتبر سمجھی جاتی تھی ۔ ان کی شخصیت محبوب و محترم تھی ۔ وہ قریش کے نسب کے ماہر اور ان کے معاملات سے خوب واقف تھے ۔ تجارت میں دیانت ، کردار میں سچائی ، مزاج میں خلیق و شفیق اور وفا میں نمایاں تھے ۔ وہ دس صحابہ ’’ عشرہ مبشرہ ‘‘ جنہیں جنت کی بشارت ملی ، ان میں سے پانچ افراد ، حضرت عثمان غنی ، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر ، حضرت سعد اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللّٰہ عنہم آپ ہی کی ترغیب سے مشرف با اسلام ہوے ۔ ( الاستیعاب ) ان کے علاوہ ابوعبیدہ بن الجراح ، عثمان بن مظعون ، ابوسلمہ ، ابن عبدالاسد اور خالد بن سعید بن العاص بھی آپ ہی کی بدولت آستانہ نبوی سے وابستہ ہوے ۔
ایمان لانے کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ نے اپنی تمام قوت و قابلیت ، سارا اثر و رسوخ ، کل مال و متاع ، اپنی جان اور اولاد ، غرض جو کچھ آپ کے پاس تھا وہ سب دینِ اسلام اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لگادیا تھا ۔ ان کی تمام زندگی اطاعت و استقامت کی نمایاں تصویر ہے۔ حضرت سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ ہی وہ ہستی ہے کہ مسجدِ نبوی کے لیے رسول کریم ﷺ کی پسندیدہ زمین کی قیمت انہوں نے ادا کی ۔ 9 ہجری میں انہیں رسولِ پاک ﷺ نے امیرِ حج مامور فرمایا ۔ بخاری شریف میں ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا : رفاقت اور مال میں مجھ پر سب سے زیادہ احسان ابوبکر کا ہے ۔
طبرانی میں ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا کہ جنت کے ہر دروازے والا چاہے گا کہ ابوبکر اس کے دروازے سے داخل ہوں ۔ دیلمی میں ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر الصدیق کی محبت اور شکر ہر امتی پر واجب ہے ۔
شجاعت کے حوالے سے بھی حضرت سیدنا ابوبکر کا مقام بلند اور اعلی ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہم کا کہنا ہے کہ ہم میں سب سے زیادہ جری وہ سمجھا جاتا تھا جو رسولِ کریم ﷺ کے زیادہ قریب ہوتا تھا کیوں کہ دشمنوں کا سب سے زیادہ زور رسولِ کریم ﷺ ہی کی ذات اقدس پر ہوا کرتا تھا اور سیدنا ابوبکر الصدیق سے زیادہ کوئی شخص رسولِ کریم ﷺ کے قریب نہیں ہوتا تھا ۔ خاص طور پر غزوۂ بدر و احد میں رسولِ کریم ﷺ کے پہلو میں چٹان کی طرح حضرت ابوبکر ہی رہے ۔
مشکوۃ شریف میں ہے : ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالی عنہا فرماتی ہیں تاروں بھری رات تھی ، میں نے عرض کی کہ کسی کی آسمان کے تاروں کے برابر بھی نیکیاں ہیں ، اللّٰہ تعالی کی عطا سے سب کچھ جاننے والے رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا : ہاں اتنی نیکیاں عمر فاروق کی ہیں ۔ میں نے عرض کی اور میرے والد ابوبکر کی ؟ تو نبی پاک ﷺ نے فرمایا : عمر فاروق کی تمام نیکیاں ابوبکر کی نیکیوں میں سے ایک نیکی کی طرح ہیں ۔
علامہ حافظ ابن عساکر نے سیدنا ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا : ابوبکر کے سوا میں نے جس کسی کو دینِ اسلام کی دعوت دی ، اس نے توقف کیا ، ایک ابوبکر ہیں کہ انہوں نے بلاتوقف اور بلا تردد میری دعوت اور ہر بات کو قبول کیا اور استقامت کا مظاہرہ کیا ۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوالدرداء رضی اللّٰہ عنہ سے بھی روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا : اللّٰہ تعالی نے مجھے تم سب کی طرف مبعوث فرمایا تو تم سب نے جھٹلایا جب کہ ابوبکر نے میری تصدیق کی ۔
ارشاد الساری شرح بخاری میں ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ بفضلہ تعالی زمانہ جاہلیت میں بھی بُت پرستی سے محفوظ رہے ۔ انہوں نے خود یہ واقعہ رسولِ کریم ﷺ کو سنایا کہ ان کے والد انہیں اپنے ساتھ بتوں کے سامنے لے گئے اور بتوں کو معبود قرار دیتے ہوئے ان کی تعریف کی ، ان کے سامنے جھکنے کو کہا ۔ حضرت سیدنا ابوبکر نے بت خانہ کے ایک بڑے بت سے کہا ، میں بھوکا ہوں مجھے کھانا کھلا ، برہنہ ہوں مجھے کپڑے پہنا ۔ بت سے کوئی جواب نہ ملا تو ایک پتھر اٹھاکر بت سے کہا اگر تو معبود ہے تو اپنے آپ کو بچالے اور وہ پتھر زور سے اس بت کو مارا ، وہ بُت مونھ کے بل گرگیا ۔ ان کے والد کو اس حرکت پر بہت رنج ہوا ، گھر آکر اپنی بیوی سے شکایت کی کہ تمہارے بیٹے نے ایسا کیا ہے ۔ حضرت ابوبکر کی والدہ محترمہ نے جواب میں فرمایا ، اسے کچھ نہ کہو ، جب یہ میرے شکم میں تھا تو مجھے غیب سے یہ صدا آئی تھی ، اے اللّٰہ کی بندی ! خوش خبری ہو تجھے ایک آزاد فرزند کی جس کا نام آسمانوں میں صدیق ہے اور وہ اللّٰہ کے نبی ﷺ کا صحابی اور ساتھی ہوگا ۔ حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ نے جب یہ واقعہ سنایا تو جبریل امین علیہ السلام تشریف لاے اور تین مرتبہ فرمایا کہ ابوبکر نے بالکل سچ بیان کیا ۔
حضرت سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ کا سب سے نمایاں وصف ان کا مثالی عشقِ رسول ہے ۔ امام ربّانی حضرت مجدد الفِ ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا یہ ارشاد یادگار ہے کہ کائنات میں رسولِ کریم ﷺ سا مرشد و محبوب کوئی نہیں ہوا اور حضرت سیدنا ابوبکر سا مرید و عاشق کوئی نہیں ہوا ۔
دو برس تین ماہ اور گیارہ روز تک خلیفۂ رسول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ نے مسندِ خلافت کو رونق بخشی ۔ اس مختصر عرصے میں نبوت کے جھوٹے دعوے داروں اور ارتداد کی تحریکوں سے نبٹنے اور ملکوں کی فتوحات کے ساتھ ساتھ ایسے عظیم الشان کارہاے نمایاں انجام دیے جن پر تاریخِ اسلام کو ناز ہے ۔
کنزالعمال میں ہے : حضرت سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ نے مولاے کائنات سیدنا علی کرم اللّٰہ وجہہ سے فرمایا کہ مجھے انہی ہاتھوں سے غسل دینا جن سے آپ نے رسولِ کریم ﷺ کو غسل دیا تھا اور میرے جنازے کو حجرہ رسول کے پاس لے جانا اور اجازت چاہنا ۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ میں نے ایسا ہی کیا اور رسولِ پاک ﷺ کے حجرۂ اقدس پر جاکر کہا ، یارسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیک وسلم یہ ابوبکر ہیں اور اجازت چاہتے ہیں ۔ تو میں نے دیکھا کہ حجرہ رسول کا دروازہ کھلا اور میں نے سنا کہنے والے کو ، پیارے کو اس کے پیارے کے پاس لے آؤ ۔ بے شک حبیب اپنے پیارے کا مشتاق ہے ۔ ( 35729 )
علامہ اقبال فرماتے ہیں ؂
ہمت او کشت ملت راچوں ابر
ثانی اسلام و غار و بدر و قبر

One Comment

  • Shahbaz Saeed

    Subhan Allah! Allah Pak hum sb ko Hazrat Abu Bakr R.A jaisa ishq e rasool ataa karay! Ameen

    • 4:28 pm - May 19, 2016