شہنشاہِ ولایت، بابِ علم و حکمت، فاتحِ خیبر سیدنا علی کرم اللہ وجہہ[:]

شہنشاہِ ولایت، بابِ علم و حکمت، امیر المومنین سیدنا علی کرّم اللّٰہ وجہہ

تحریر : کوکب نورانی اوکاڑوی

اللّٰہ تعالی کے ذاتی نام کے حُرف چار ہیں – رحمت ِ عالم، نورِ مجسم، شفیعِ معظم (ﷺ) کے نام مبارک محمد کے حُرف بھی چار ہیں – کتاب کے حُرف چار اور قرآن کے حُرف بھی چار – اللّٰہ کے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں میں سے اولوالعزم رسول بھی چار ہیں – آسمانی صحائف بہت سے ہیں مگر خاص اور مشہور چار ہیں – اللّٰہ کے فرشتے بے شمار ہیں مگر ان میں سے رسول فرشتے اور مرتبت میں بھی زیادہ چار ہیں – سمتیں بھی چار ہیں اور دنیا کے عناصر بھی چار ہیں – آگ، ہَوا، پانی، مٹی – شریعت کے سلسلے بھی چار ہیں – حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور طریقت کے سلسلے بھی چار ہیں – نقش بندی، چشتی، قادری، سہروردی- دِین بھی چار ہیں – رسول اللّٰہ ﷺ کے صحابہ ایک لاکھ چوبیس ہزار ہیں مگر ان میں عظمت و مرتبت کے لحاظ سے افضل بھی چار ہیں اور ان کے درجات بالترتیب ہیں – حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی رضی اللّٰہ عنہم – حضورِ اکرم ﷺ کے تمام صحابہ پر حضرت ابوبکر کو کلّی فضیلت حاصل ہے وہ نبیوں کے بعد سب سے افضل بشر ہیں – ان کے بعد بالترتیب اصحابِ ثلاثہ مذکورہ بالا – ان میں سے بعض کو جزوی طَور پر کچھ فضیلتیں حاصل ہیں لیکن یہ قاعدہ ہے کہ جزوی فضیلت کلّی فضیلت کے منافی نہیں ہوتی اور یہ بھی اصول ہے کہ غیر نبی کو کسی نبی پر جزوی فضیلت بھی حاصل نہیں – یہ چاروں اصحابِ رسول اسلام کی بہار اور دِین کا اعتبار و افتخار ہیں – ان میں سے کسی ایک کے بغیر اسلام کی بلند و بالا پُرشِکوہ عمارت کی عظمت و شوکت کا تصور نہیں – حضورِ اکرم ﷺ کے اس جہانِ فانی سے پردہ فرمانے کے بعد خلافت ِ علیٰ منہاج النبوت اِن چاروں کے حصے میں بالترتیب آئی – اور اِن چاروں کے بعد ملوکیت کا سلسلہ شروع ہُوا – حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کو خلیفہئ رسول کے لقب سے پکارا گیا – حضرت عمر کو شروع میں خلیفہئ رسول کے خلیفہ کہا جاتا رہا پھر بعد میں سب سے پہلے انہیں امیر المومنین کے لقب سے پکارا گیا اِن کے بعد دیگر خلفائے راشدین کو اِسی لقب سے یاد کیا گیا اور خلفائے راشدین کی تعداد صرف پانچ ہے اِن چار یارانِ نبوت کے بعد پانچویں خلیفہئ راشد کا خطاب پانے والے حضرت عمر بن عبدالعزیز ہے – رسول اللّٰہ ﷺ کے چوتھے خلیفہ امیر المومنین، خلیفۃ المسلمین، امام المتقین، شہنشاہِ ولایت، بابِ علم و حکمت ِ نبوت، فاتح خیبر، مولائے کائنات، دامادِ رسول، زوجِ بتول، پِدرِ حسنین، فخرِ کونین حضرت ابوالحسن سیدنا علی ابنِ ابی طالب کرّم اللّٰہ وجہہ کو دوسرے صحابہ پر بہت سی جزوی فضیلتیں حاصل ہیں اور ان کی عظمت و شان کتاب اللّٰہ اور احادیث ِ نبوی کے مطابق بہت بلند ہے – ختمی مرتبت (ﷺ) کے ارشادات کی ایک جھلک ملاحظہ ہو – ترمذی شریف میں حدیث ِ نبوی ہے حضرت زید ابنِ اَرقم رضی اللّٰہ عنہ روایت کرتے ہیں حضرت زید ابنِ اَرقم رضی اللّٰہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رحمت ِ عالم (ﷺ) نے فرمایا حضرت علی، حضرت فاطمہ زہرا  اور حسنین کے لئے جو اِن سے لڑتا ہے میں اس سے لڑنے والا ہوں اور جو اِن کی سلامتی چاہتا ہے میں اس کی سلامتی چاہنے والا ہوں – ترمذی شریف جو صحاحِ ستّہ کی مشہور کتاب ہے اس میں حدیث شریف ہے سیدالعالمین (ﷺ) نے فرمایا حسنین کا ہاتھ پکڑ کر کہ جو اِن کو دوست اور محبوب رکھے اور اِن کے ماں باپ کو محبوب رکھے وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجے میں ہوگا – المستدرک میں حدیث پاک ہے نورِ مجسم (ﷺ) نے فرمایا جو علی کو محبوب رکھے وہ مجھے محبوب رکھتا ہے اور جو مجھے محبوب رکھتا ہے وہ اللّٰہ کا دوست ہے اور جو علی سے بُغض رکھے وہ مجھ سے بُغض رکھتا ہے اور جو مجھ سے بُغض رکھتا ہے وہ بلاشبہ اللّٰہ سے بُغض و دشمنی  رکھتا ہے – ترمذی شریف میں ہے حضرت عمران بن حصین رضی اللّٰہ عنہ روایت کرتے  ہیں کہ رحمۃ للعالمین، محبوبِ رب العالمین (ﷺ) نے فرمایا بے شک علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور علی ہر مومن کے دوست اور ولی ہیں – یعنی علی میرے ہیں اور میں علی کا ہوں علی میرے اہلِ بیت سے ہیں اور میں علم و شجاعت کے لحاظ سے علی سے ظاہر ہوں اور ہر ایمان والے کے لئے علی کی محبت و دوستی ضروری ہے – فرمایا جو مومن ہوگا وہ علی سے محبت رکھے گا اور جو منافق ہوگا وہ علی سے دشمنی رکھے گا (مسلم شریف) گو یا حضرت علی ایمان اور نفاق میں امتیاز کرنے والے ہیں ان کی دوستی مومن ہونے کی اور علی کی دشمنی منافق ہونے کی واضح علامت ہے – مشکوۃ شریف میں حدیث ہے حضرت براء بن عازب روایت کرتے ہیں کہ غدیر خم کے موقع پر غیب کی خبریں دینے والے آقا نے فرمایا اے اللّٰہ میں جس کا دوست اور مددگار ہوں علی بھی اس کے دوست اور مددگار ہیں – اے اللّٰہ جو ان سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ اور جو ان سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ – یہ دعائے رسول (ﷺ) یقینا بارگاہِ الہی میں مستجاب ہے – بخاری شریف میں ہے غزوہئ خیبر کے موقع پر رحمت ِ عالم، شفیعِ معظم (ﷺ) نے فرمایا میں کل جھنڈا  اُس کو عطا کروں گا جس کے ہاتھ سے خیبر فتح ہوگا اور اُس شخص کی پہچان یہ ہے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کو محبوب رکھتا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ اور اُس کا رسول اس شخص کو محبوب رکھتے ہیں – چناں چہ فتح خیبر کے لئے رسول اللّٰہ  ﷺ نے حضرت علی کو جھنڈا عطا فرمایا اور  اس ارشادِ گرامی سے ثابت ہوا کہ حضرت علی اللّٰہ اور اس کے رسول کے محب و محبوب ہیں – ترمذی شریف اور مستدرک میں حدیث ِ نبوی ہے سید العالمین (ﷺ) نے فرمایا میں علم و دانائی کا شہر ہوں اور علی اس کے دروازہ ہیں چناں چہ باب العلم حضرت علی کے علوم کا یہ احوال تھا جامع کبیر میں عامر بن ورثہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے فرمایا قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے مجھ سے پوچھو میں تمہیں بتاؤں گا – یہاں تک فرمایا میں قرآن سے ہر مسئلے کا جواب پیش کروں گا – چناں چہ بے شمار سوال کئے گئے حضرت علی نے تمام مسائل کا جواب قرآنِ کریم سے پیش کِیا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب بابِ علم کے علوم کی یہ شان ہے تو شہرِ علم کے مرتبہئ علوم کا کیا مقام ہوگا – یہاں تک ایک مسئلے میں سیدنا عمرفاروق رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا اگر آج علی میری رہنمائی نہ کرتے تو میں ہلاک ہوجاتا – ان  ارشادات سے واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت علی کس قدر عظمت و مرتبت رکھتے ہیں اور وہ رسول اللّٰہ ﷺ کو کس قدر محبوب ہیں – طریقت کے تمام سلاسل کو حضرت علی سے فیض ملا اور سب سلسلے اُن سے مربوط ہیں – شجاعت و جرأت کا یہ مقام کہ ان کا لقب اللّٰہ کا غالب شیر ہے – میدانِ بدر میں ندائے غیب تھی کہ علی جیسا جوان کوئی نہیں اور ذوالفقار جیسی تلوار کوئی نہیں – سرورِ عالم (ﷺ) نے اپنی محبوب ترین بیٹی سیدہ فاطمہ ان کے نکاح میں دیں – رحمت ِ عالم (ﷺ) نے جب مسلمانوں میں مواخاۃ قائم فرمائی تو حضرت علی کو کسی کا بھائی نہ بنایا وہ بارگاہِ رسالت میں پُرنم آنکھیں لئے گلوگیر لہجے میں عرض پرداز ہوئے کہ مجھے آپ نے کسی کا بھائی نہیں بنایا – حضورِ اکرم نے حضرت علی کو اپنے سینے لگاتے ہوئے فرمایا اے علی تو دنیا و آخرت میں میرا بھائی ہے – فرمایا علی کے چہرے کو دیکھنا بھی عبادت ہے – دنیائے اسلام میں ہر معرکے میں یاعلی کی صدائے بلند ہوتی ہیں اس لئے کہ حضورِ اکرم ﷺ کے ارشاد کے مطابق حضرت علی ہر مومن کے مددگار ہیں – چناں چہ مومن انہیں پکارتے ہیں اور حضرت علی اللّٰہ کی دی ہوئی قوت سے ہر مومن کی مدد فرماتے ہیں – زہد و تقوٰی میں حضرت علی کی مرتبت ضرب المثل ہیں – جُودو سخا کے واقعات کی ایک تفصیل ہے – ایک مرتبہ نماز کی حالت میں ایک تِیر حضرت علی کے جسم میں پَیوست ہوگیا – ساتھی صحابہ نے تِیر نکالا، مگر حضرت علی مصروفِ نماز رہے – نماز کے بعد ساتھیوں نے بتایا تو حضرت علی نے فرمایا پروردگار کی قسم مجھے تِیر لگنے اور تمہارے میرے جسم سے تِیر نکالنے کا مجھے قطعاً کوئی احساس تک نہیں ہُوا – عبادتِ الہٰی میں اس قدر محویت انہی کا خاصہ تھا – ان کے ارشادات علم و حکمت کے بیش بہا خزانے ہیں – حضرت علی نے فرمایا میرے معاملے میں دو گروہ ہوں گے ایک مجھے اس قدر مرتبت دے گا کہ حد سے تجاوز کرجائے گا اور یہ افراط انہیں حق سے دُور کردے گا اور دوسرا گروہ میری مرتبت میں اس قدر کمی کرے گا کہ تفریظ میں حد سے تجاوز کرے گا اور یہ تفریظ اس گروہ کو حق سے دُور کردے گی – فرمایا میرے معاملے میں بہترین لوگ وہ ہوں گے جو میرے معاملے میں افراط و تفریط کی بجائے میانہ روی اور معیارِ صداقت پر ہوں گے – پھر تاکید کرتے ہوئے فرمایا اس درمیانے گروہ کو لازم کرلو کیوں کہ وہ بڑی جماعت ہوگی اور اس پر اللّٰہ کا ہاتھ ہے – فرمایا جو اس جماعت سے علیحدہ ہوگا وہ شیطان کا شکار ہوجائے گا جس طرح وہ بکری بھیڑیئے کا شکار ہوجاتی ہے جو ریوڑ سے الگ ہوجاتی ہے – (نہج البلاغۃ) ارشادِ رسول سے یہ واضح ہوچکا کہ ذاتِ علی مومن اور منافق کی پہچان کے لئے کسوٹی ہے اور حضرت علی کے مذکورہ ارشاد سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت علی کے سچے محب اور ماننے والے کون ہیں – بلاشبہ محبت ِ علی عین ایمان اور تسکینِ جان ہے –
حضورِ اکرم ﷺ نے حضرت سے علی سے ارشاد فرمایا ایک وہ شخص نہایت بدبخت تھا جس نے صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی جو معجزے سے ظاہر ہوئی تھی، کونچیں کاٹی تھیں اور ایک وہ شخص بدبخت شدید ہوگا جو تیرے سر پر تلوار مارے گا اور تیری داڑھی خون سے بھرجائے گی – حضرت علی نے اسلامی سلطنت کا دارالخلافہ مدینہ منورہ سے کوفا منتقل کردیا تھا – آپ کا قاتل ابنِ ملجم کعبۃ اللّٰہ مکہ مکرمہ میں آپ کے قتل کا ارادہ کرکے کوفا پہنچا اور سترہ رمضان المبارک کو سحری کے بعد جب  کہ حضرت علی نمازِ فجر کے لئے مسجد جارہے تھے ایک گلی کی اَوٹ سے یکدم نمودار ہُوا اور پیچھے کی طرف سے بڑے زور سے زہر آلود تلوار حضرت علی کے سرِ اقدس پر ماری اور آپ کو شدید زخمی کردیا – تین دن تک اس وار کے بعد حضرت علی ظاہری حیات میں رہے اور پھر خاتم الانبیاء کا یہ محبوب و مطلوب مولائے کائنات ۱۲ رمضان المبارک کو جامِ شہادت نوش کرگیا – وفات سے کچھ قبل حسنین اور سیدہ زینب اشک باری کرنے لگے تو حضرت علی نے فرمایا میرے بچوں جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں اگر تم دیکھتے تو نہ روتے – حسنین نے پوچھا ابا جان آپ کیا دیکھ رہے ہیں – حضرت علی نے فرمایا، رسول اللّٰہ ﷺ انبیائے کرام کی جماعت کے ساتھ مجھے لینے آئے ہیں اور کیوں نہ آتے کہ حضرت علی پہلی امتوں کے ولیوں کے سردار ہیں – ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا نے حضرت علی کی وفات پر فرمایا اب عرب جو چاہیں کریں کیوں کہ عرب کا سہاگ اور امیر باقی نہ رہا –

[:]