اہل سنت و جماعت کون ھیں؟[:]
تحریر: حضرت علامہ کوکب نورانی اوکاڑوی
بسم الله الرحمن الرحیم ۔
والصلوۃ والسلام علی رسولہ الکریم
ھمارے معبود حقیقی الله کریم جل شانہ کا ھم اھل اسلام و ایمان پر بے پایاں انعام و احسان ھے کہ اس نے اپنے پسندیدە دین ” اسلام ” کی لا زوال نعمت و دولت سے نوازا اور ھمیں اسلام و ایمان کا حامل و امین بنا کر خیر الامم ھونے کا شرف بخشا۔
کروروں درود و سلام ھوں الله کریم جل شانہ کے آخری اور پیارے رسول کریم صلی الله علیہ وسلم پر جن کے صدقہ و طفیل ھمیں اسلام و ایمان اور ھر نعمت ملی ، الله کریم جل شانہ کی پہچان بھی انہی کے وسیلے سے ملی ۔ ھمارے دین اسلام اور ایمان کے اولین مصادر و مراجع قرآن و احادیث ھیں ، ھمیں مومن و مسلم نام انہی سے ملا ۔ اصحاب نبوی اور اھل بیت نبوت ، تابعین ، تبع تابعین انہی ناموں سے موسوم ھوے ۔
ھمارے پیارے رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے ھمیں سنت و جماعت کو لازم پکڑے رھنے اور سواد اعظم کی پے روی و اتباع کا حکم دیا اور واضح ارشادات سے ابدی حقیقت نمایاں کرکے ھماری راە نجات متعین فرما دی۔ نجات کا مدار صحیح عقائد ھیں اور عقائد قطعیہ اجماعیہ میں سواد اعظم اھل سنت و جماعت کی اتباع و پے روی لازم ھے ۔
اھل سنت و جماعت ان تمام افراد کو کہا جاتا ھے جو رسول کریم صلی الله علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضی الله عنھم اجمعین کے طریقے پر کار بند ھیں ۔ وجہ تسمیہ نام سے ظاھر ہے، سنت پر چلنے والے اور جماعت کہنے کی وجہ یہ کہ وە لوگ حق پر جمع ھوے اور تفرقات میں نہیں پڑے ۔ مصلحین امت نے ھر دَور میں ملت اسلامیہ کو افتراق سے بچانے کی کوشش کی ہے، اسی کوشش کو مسلک حق اہل سنت و جماعت کہا گیا، عملی طور پر اصحاب نبوی ، اہل بیت نبوت ، تابعین ، تبع تابعین ، محدثين ،ائمہ مجتہدین ، اولیاے کاملین سب اسی پر کار بند رہے۔
جو مسلمان اعتقادًا ما تریدی یا اشعری اور فقہی طور پر حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ، مقلد ہے اور کسی صحیح سلسلہٴ طریقت ،قادِری ، چشتی ، نقش بندی ، سہروردی ، شاذلی ، رفاعی ( وغیرە ) سے وابستہ ہے، وە اہل سنت وجماعت ( ایک لفظ میں ” سنی” ) ہے ، (وە صحیح عقیدے والے سنی جو مقلد نہیں یا سلسلہٴ طریقت سے وابستہ نہیں ، وە بھی سواد اعظم میں شامل ھیں ۔)ابتدا ھی سے ھر عہد میں اہل سنت و جماعت سواد اعظم بڑی تعداد میں رہے ھیں مگر پیمانہ کثرت و قلت نہیں بلکہ اتباع حق ہے ۔
اہل سنت و جماعت کا لقب یا اصطلاح قرون ثلاثہ کے بعد کا من گھڑت نہیں ہے ، بلکہ یہ جملہ فرقِ مبتدعہ سے قبل رسول کریم صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنہ کے ظاھری عہد مبارک سے صحیح العقیدە اہل حق مسلمانوں کے لیے استعمال ھوتا آ رہا ہے ۔چناں چہ حضرت سیدنا امام زین العابدین علی بن حسین رضی الله عنہما کی روایت موجود ہے کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم پر کثرت سے درود شریف بھیجنا اہل سنت ھونے کی علامت ہے۔
(الترغیب : 963، القول البدیع 52، فضائل اعمال688)۔
٢٦٤١ – حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الحَفَرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ الأَفْرِيقِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بني إسرائيل حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ، حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ، وَإِنَّ بني إسرائيل تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً»، قَالُوا: وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي»: عبد الله بن عمرو سے مروی ہے، کہتے ھیں کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔۔۔۔۔ تحقیق بنی اسرائیل 72 فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت 73 فرقوں میں بٹ جاے گی، ملت واحدە کے سوا سب دوزخ میں جائیں گے ۔ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے عرض کی ، یا رسول الله صلی الله علیک وسلم، وە ملت واحدە کون ھوں گے؟ تو رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس طریقے پر میں ھوں اور میرے اصحاب ۔ ( ترمذی : 2461 ، ابن ماجہ: 3992 ، ابو داود:4597، مشکوۃ : 171)
امام ملا علی قاری فرماتے ھیں : ما انا علیہ واصحابی کے مصداق بلا شک اہل سنت و جماعت ھی ھیں اور کہا گیا ہے کہ تقدیر عبارت یوں ہے کہ اہل جنت وە ھیں جو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے طریقے پر ھیں اعتقادًا ، قولاً، فعلاً ۔ اس لیے کہ یہ بات بالاجماع معروف ہے کہ علماے اسلام نےجس بات پر اجماع کر لیا وە حق ہے اور اس کا ما سوا باطل ہے ۔
وعن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” إن الله لا يجمع أمتي أو قال: أمة محمد على ضلالة ويد الله على الجماعة ومن شذ شذ في النار “. . رواه الترمذي وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اتبعوا السواد الأعظم فإنه من شذ شذفي النار» . رواه ابن ماجه من حديث أنس
اور ابن عمر رضی الله عنہما سے روایات ھیں کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک الله تعالی امت محمدی کو گم راہی پر جمع نہیں فرماے گا اور ا لله کا ھاتھ جماعت پر ہے اور سواد اعظم کی پے روی کرو اور جو شخص ( جماعت سے اعتقادا یا قولا یا فعلا ) الگ ھوا وە آگ میں الگ ھوا۔ اس کا معنی اور مفہوم یہ ہے کہ جو شخص اپنے اہل جنت اصحاب سے الگ ھوا وە آگ میں ڈالا جاے گا۔(ترمذی:2167،کنزالعمال:1029،1030،مشکوۃ:173،174)
ابن عباس رضی ا لله عنہما سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : من فارق الجماعة شبرا فمات، إلا مات ميتة جاهلية ( بخاری : 7054) جو جماعت (اھل سنت ) سے بالشت بھر بھی الگ ھوا ، پھر اسی حال میں مرا تو وە جاھلیت کی موت مرا۔
مخالفينِِ اهل سنت کے علامہ ابن تیمیہ نے ” یوم تبیض وجوە وتسود وجوە “(القران ) کی تفسیر میں لکھا ہے : قال ابن عباس وغیرە تبیض وجوە اھل السنۃ والجماعۃ وتسود وجوە اھل البدعۃ والفرقۃ ۔ ( مجموع الفتاوٰی ، 278/3 ) اور پھر لکھا کہ امت کے تمام فرقوں میں اہل سنت اس طرح وسط اور درمیانے ھیں جیسے تمام امتوں میں امت مسلمہ ۔كما فى قوله تعالى وكذلك جعلناكم أمة وسطا(البقرە: 143 ) – ( مجموع الفتاوی، 370/3) اور لكهافان الفرقة الناجية اهل السنة والجماعة۔ (141/3)
( تفسیر ابن جریر میں آیت قرآنی ” واعتصموا بحبل الله جمیعا ” کے تحت حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی الله عنە کی روایت سے لکھا ” قال الجماعۃ ” اور دوسری سند سے ابن مسعود رضی الله عنہ ھی سے اسی آیت کے تحت لکھا ” قال حبل الله الجماعۃ” ابن جریر لکھتے ھیں ( ولا تفرقوا عن دین الله ) علیکم بالطاعۃ والجماعۃ اھل السنۃ والجماعۃ ۔) اور تفسیر ابن کثیر میں ھے( یوم تبیض وجوە وتسود وجوە ) یعنی یوم القیامۃ حین تبیض وجوە اھل السنۃ والجماعۃ وتسود وجوە اھل البدعۃ والفرقۃ (390/1)
وَأخرج ابْن أبي حَاتِم وَأَبُو نصر فِي الْإِبَانَة والخطيب فِي تَارِيخه واللالكائي فِي السّنة عَن ابْن عَبَّاس فِي هَذِه الْآيَة قَالَ {تبيض وُجُوه وَتسود وُجُوه} قَالَ تبيض وُجُوه أهل السّنة وَالْجَمَاعَة وَتسود وُجُوه أهل الْبدع والضلالة وَأخرج الْخَطِيب فِي رُوَاة مَالك والديلمي عَن ابْن عمر عَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فِي قَوْله تَعَالَى {يَوْم تبيض وُجُوه وَتسود وُجُوه} قَالَ: تبيض وُجُوه أهل السّنة وَتسود وُجُوه أهل الْبدع۔ وَأخرج أَبُو نصر السجْزِي فِي الْإِبَانَة عَن أبي سعيد الْخُدْرِيّ أَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَرَأَ {يَوْم تبيض وُجُوه وَتسود وُجُوه} قَالَ: تبيض وُجُوه أهل الْجَمَاعَات وَالسّنة وَتسود وُجُوه أهل الْبدع والأهواء ،
(دیلمی مسند الفردوس:8986، کنز العمال: 2637، تاریخ بغداد:3908، تفسیرمظھری116/1،السنۃ :74)
اور ابن ابی حاتم اور ابو نصر نے ابانہ میں اور خطیب نے اپنی تاریخ میں اور اللال کائی نے السنۃ میں ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت فرمائی اس آیت ” یوم تبیض وجوە وتسود وجوە ” (آل عمران:106 ) کے بارے میں ، فرمایا کچھ چہرے سفید ھوں گے اور کچھ چہرے سیاە ، ابن عباس نے فرمایا اھل سنت و جماعت کے چہرے سفید اور اھل باطل کے چہرے سیاە ھوں گے اور دیلمی نے ابن عمر سے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے اس آیت کی یونہی تفسیر فرمائی اور ابو نصر سجزى نے أبانه ميں ابو سعيد خدري سے روايت كى كه رسول كريم صلی الله علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی اور فرمايا اهل سنت كےچہرے روشن ھوں گے اور اھل باطل کے چہرے سیاە ھوں گے ۔( الدر المنثور :63/2 )
محبوب سبحانی شیخ عبد القادر جیلانی سیدنا غوث اعظم رضی الله عنہ فرماتے ھیں کہ فرقہ ناجیہ اہل سنت و جماعت ھی ھیں ۔ مومن کے لیے لازم ہے سنت اور جماعت کی اتباع کرے پس سنت وە ہے جسے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جاری فرمایا ھو اور جماعت وە ہے جس پر ائمہ اربعہ خلفاے راشدین مہدیین رضی الله عنہم اجمعین کے دَور خلافت میں اصحاب نبوی نے اتفاق کیا ۔( غنیۃ الطالبین 192)
محی الدین ، معین الدین ، شہاب الدین ، بہاوٴ الدین ، قطب الدین ، فرید الدین ، نظام الدین ، علاوٴ الدین ، نصیر الدین ، حمید الدین ، جلال الدین ، مصلح الدین ، حسام الدین ، صلاح الدین ، نور الدین ، منیر الدین ، شریف الدین ، سدید الدین ، شرف الدین ، تاج الدین ، اوحد الدین ، امین الدین ، کریم الدین ، سیف الدین ، شمس الدین ، سبھی اہل سنت وجماعت ھوے ، ولایت بلا شبہ الله تعالی کا انعام ہے اور انعام دوستوں پیاروں ھی کو دیا جاتاھے۔ اہل سنت و جماعت کے اہل حق ھونے کی یہ واضح دلیل ھے
گزشتہ صدی میں وە لوگ جو صحیح العقیدە اہل سنت و جماعت نہیں تھے مگر انہوں نے خود کو اھل سنت وجماعت کہلانا چاہا تو اہل حق اہل سنت و جماعت کی پہچان واضح کرنے کے لیے سنی کے ساتھ بریلوی کا لقب پکارا جانے لگا ، چودھویں صدی میں مجدد اعظم امام اہل سنت اعلی حضرت مولانا شاە احمد رضا خان بریلوی رحمۃ الله علیہ نے غیروں کی سازشوں کو پنپ نے نہیں دیا اور کمال جراٴت و استقامت سے مسلک حق اہل سنت و جماعت کی ترجمانی کا حق ادا کیا اس لیے ان کی نسبت سے بریلوی کا لقب آج اہل سنت و جماعت کی پہچان اور ھر سچے سنی کی صداقت کا عنوان ھے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Atif Talib
Respected Sir,
I like to thank on your sincere efforts to give me a golden opportunity to understand myself and who I am.
I will truly congratulate you on the contents, style, presentation and most importantly the references have been taken to clarify once for all.
There are much more to understand and learn from this article and will be helpful to understand myself completely.
I only know it from the lory of my childhood,
” اللی جی میں کلی آں شہر مدینے چلی آں
شہر مدینہ دور اے جاناں وی ذرور اے
اندر بی بی فاطمہ بار خدا دا نور اے”
Allah Aapko humri umaray b àata kre. Ameen!
Thanking,
Atif Talib
7:57 pm - August 1, 2015